بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے کافی یا گرین ٹی بہتر؟
Image
لاہور: (سنو نیوز) ویسے تو چائے کو عام طو ر مشروب اعظم قرار دیا جاتاہے لیکن چائے کے علاوہ گرین ٹی اور کافی بھی خوب استعمال کیا جاتاہے،کافی اور گرین ٹی کو عام طور پر وزن کم کرنےکے لیے استعمال کیاجاتاہے لیکن ان مشروبات کو کون لوگ استعمال کرسکتے ہیں یہ ایک اہم سوال ہے ؟

کافی یا گرین ٹی جو ہائی بی پی کے مریضوں کے لیے بہتر ہے،کافی اور گرین ٹی ہر عمر کے لوگ پیتے ہیں۔ ان دونوں میں سے سبز چائے کو اکثر صحت مند سمجھا جاتا ہے، جو لوگ وزن کم کرنا چاہتے ہیں وہ اکثر اس چائے کو پینا پسند کرتے ہیں۔ آپ نے سنا ہو گا کہ کیفین کا استعمال ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے اچھا نہیں ہے، کیونکہ یہ بی پی کو مزید بڑھاتا ہے۔ اب یہ مرکب کافی اور سبز چائے دونوں میں پایا جاتا ہے، تو کیا دونوں بی پی کے مریضوں کے لیے مفید ہیں؟

 

بی پی کتنا ہونا چاہیے؟

ایک صحت مند بالغ کا بلڈ پریشر 90/60 mm Hg سے 120/80 mm Hg تک ہونا چاہئے، اگر بی پی زیادہ بڑھ جائے تو دل کے دورے جیسے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو لوگ روزانہ صرف ایک کپ گرین ٹی یا کافی پیتے ہیں ان میں ایسا خطرہ نہیں ہوتاان کےبرعکس کافی پینے والوں میں ہارٹ اٹیک سے موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جنہیں ہائی بلڈ پریشر ہوتا ہے،تاہم نارمل بلڈپریشر والے کافی استعمال کر سکتے ہیں۔

ریسرچ میں یہ بات سامنے آئی ہےکہ جو لوگ دن میں ایک بار کافی پیتے ہیں اور روزانہ سبز چائے پیتے ہیں انہیں دل کی بیماریوں کا خطرہ نہیں ہوتا، چاہے وہ بی پی کے مریض ہی کیوں نہ ہوں۔

19 سال تک جاری رہنے والی اس تحقیق کے ابتدائی دور میں 40 سے 79 سال کی عمر کے 6570 سے زائد مرد اور 12,000 خواتین کو شامل کیا گیا، جنہیں کینسر کے خطرے کی تشخیص کے لیے جاپان کولیبریٹو کوہورٹ اسٹڈی سے منتخب کیا گیا۔

 

ہائی بی پی کے مریضوں کو کافی نہیں پینی چاہیے،

ایک کپ کافی تقریباً 80 سے 90 ملی گرام کیفین فراہم کرتی ہے، یہ ہائی بلڈ پریشر کی حالت میں ٹھیک نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ ہائی بی پی کے مریض کافی نہ پییں کیونکہ طویل مدت میں اس سے دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

کیا بی پی کے مریض سبز چائے پی سکتے ہیں؟

سبز چائے میں کیفین ضرور پائی جاتی ہے لیکن اس میں اس کمپاؤنڈ کی مقدار بہت کم ہوتی ہے جس سے دل کی دھڑکن اور میٹابولزم خطرناک حد تک نہیں بڑھتا، پھر بھی سبز چائے پینے سے پہلے اپنے ڈاکٹر کا مشورہ ضرور لیں۔