بچوں میں موبائل فون کی لت صحت اور دماغ کو متاثر کرتی ہے: تحقیق
Image
لاہور:(ویب ڈیسک) یہ ایک حقیقت ہے کہ موبائل، کمپیوٹر اور ٹیلی ویژن اسکرین ہماری زندگی کا اہم حصہ بن چکے ہیں اور بچے بہت آسانی اور قدرتی طور پر ان کا استعمال سیکھتے ہیں۔
 
بہت سے والدین اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی اسمارٹ فون دیتے ہیں۔ کئی بار ہم نے دیکھا ہے کہ بہت چھوٹا بچہ بھی جانتا ہے کہ انگلی لگانے سے سکرین روشن ہوتی ہے۔
 
بچے جلد ہی موبائل فون کے عادی ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے ذہنوں میں تبدیلی آتی ہے۔
 
دنیا بھر میں بچوں میں اسمارٹ فون استعمال کرنے کی عادت ان کے رویے پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ خاص طور پر 12 سال سے کم عمر کے بچوں میں اسمارٹ فون استعمال کرنے کی عادت نا صرف ان کی صحت کو متاثر کرتی ہے بلکہ وہ ضدی اور ذہنی طور پر پریشان ہونے کا باعث بنتی ہے۔
 
یہ صرف ایک خاندان کی کہانی نہیں ہے بلکہ آج بہت سی مائیں اور باپ اپنے بچوں کے لیے پریشان ہیں۔
 
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں چھ سے اٹھارہ سال کی عمر کے 80 فیصد بچے روزانہ چار سے چھ گھنٹے اسکرینوں کو دیکھنے میں صرف کرتے ہیں جن میں موبائل فون، ویڈیو گیمز اور کمپیوٹر کا استعمال شامل ہے۔
 
اسکرین کو زیادہ دیکھنے کی وجہ سے 30 فیصد بچوں کی نزدیکی بینائی کمزور ہو جاتی ہے۔ ان میں سے 50 فیصد کی بینائی اچھی ہے اور وہ سر درد اور آنکھوں میں درد کی شکایت کرتے ہیں۔
 
ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ بچوں میں موبائل فون اور گیمز کی لت کئی مسائل کا باعث بنتی ہے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ والدین بے بس نظر آتے ہیں اور ان کے بچے گہرے ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔بچے اسکرین کو زیادہ دیکھتے ہیں جس سے ان کی تعلیم، صحت اور دماغ بھی متاثر ہوتا ہے۔'
 
 اگر ہم اس وقت بچوں سے موبائل فون لے لیں تو  وہ اچھی طرح سو بھی نہیں سکتے۔ اس کے علاوہ ان کی بینائی کمزور ہوجاتی ہے، جسمانی صحت کے مسائل کے علاوہ ان کی توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت بھی کم ہوجاتی ہے۔
 
کورونا وائرس کے دوران بچوں کے اسکرین ٹائم میں اضافے کی وجہ سے دیکھا گیا ہے کہ اسکول واپس جانے کے بعد ان کی ملنساریت میں کمی آئی ہے اور وہ دوست بنانے میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھاتے ہیں۔
کچھ ایسے بچوں کو دیکھا گیا ہے جو گیمز کے اس قدر عادی ہیں کہ وہ اسکول جانے کے بعد بھی سیکھنا شروع نہیں کر پاتے۔
 
 اسکرین کو بہت زیادہ دیکھنے کے ذہنی اثرات کے بارے میں تحقیق کے مطابق اگر بچے یا نوجوان چھ یا سات گھنٹے سے زیادہ اسکرین کو دیکھتے ہیں تو اس کے ان پر نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ "یہ خود پر قابو پانے، دلچسپی یا تجسس کی کمی، ارتکاز اور جذباتی استحکام کی کمی کے ساتھ ساتھ آسانی سے دوست بنانے کی صلاحیت کی کمی کا باعث بن سکتا ہے۔
 
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ وہ اسکرین پر کیا دیکھتے ہیں۔ اس کا اثر ایک بچے سے دوسرے میں مختلف ہوتا ہے۔
 
محققین نے پایا ہے کہ جو طالب علم پڑھائی کے دوران ٹیکسٹ میسج بھیجتے یا وصول کرتے ہیں وہ ٹیسٹ میں اچھی کارکردگی نہیں دکھاتے۔
 
کس عمر میں بچے کو سیل فون دینا چاہیے؟
 
بچے اپنے والدین سے موبائل فون کا استعمال سیکھتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پیدائش سے لے کر آٹھ سال تک کے بچے ٹیکنالوجی کے خطرات کو نہیں سمجھتے اور اپنے والدین کے لیے مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔
 
آج، بہت سے والدین اپنے بچوں کوا سمارٹ فون نہ دینے اور انہیں ان سے حتی الامکان دور رکھنے کی فکر میں ہیں۔
 
اگرچہ ہمارے پاس اس بات کے مکمل ثبوت نہیں ہیں کہ موبائل فون یا سوشل میڈیا تک رسائی بچوں کی دماغی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے، لیکن زیادہ تر مطالعات اور شواہد سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک خاص عمر میں موبائل فون اور سوشل میڈیا کا استعمال دماغی نشوونما کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔ 
 
برے اثرات:
 
بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ جب آپ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ کا بچہ اسمارٹ فون کے لیے تیار ہے تو چند عوامل کو مدنظر رکھنا چاہیے اور موبائل فون دینے کے بعد کیا کرنا چاہیے۔
 
تحقیق کے مطابق آٹھ سال تک کے بچے انٹرنیٹ کے خطرات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔  والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ جانیں کہ ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال کیسے کیا جائے۔اس عمر میں بچے کو یہ بتانا بھی شامل ہے کہ وہ کون سی ایپس اور کتنے عرصے تک استعمال کر سکتا ہے۔ بچے کو مواد تک عمر کے لحاظ سے مناسب رسائی یا اجازت ہونی چاہیے۔
 
بشکریہ: بی بی سی