پی سی بی میں سیاسی بھرتیاں: نقصان صرف پاکستان کرکٹ کا
Image
لاہور: (ویب ڈیسک) کرکٹ کی ہنگامہ خیز دنیا میں پاکستان کی اپنی اہمیت ہے لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی چیئر مین شپ اور بورڈ میں سیاسی بھرتیوں کے باعث نقصان صرف پاکستان کرکٹ کا ہورہا ہے۔
 
سیاسی جماعتوں کے درمیان اقتدار کی اونچ نیچ کی کشمکش نے پی سی بی میں بھی گھس کر پاکستان کرکٹ کے منظر نامے کو داغدار اور اس کا مستقبل غیر یقینی بنا دیا ہے۔
 
چیئرمین پی سی بی کا عہدہ دیگر کرکٹ بورڈز سے بہت مختلف ہے۔ دنیا بھر کے کرکٹ بورڈز کے چیئرمین ایسے نہیں جو حکومت میں متعدد عہدوں پر فائز ہوں یا ایسے نہیں ہیں جو اپنی سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر اقتدار میں آتے ہوں لیکن یہاں پاکستان میں سب کچھ ہوتا ہے اور کرکٹ بورڈ میں سیاسی بھرتیاں کی جاتی ہیں۔
 
ایک نظر ڈالتے ہیں کہ پی سی بی کی چیئرمین شپ کے لیے اس لڑائی نے پاکستان کرکٹ کو کس طرح برباد اور نقصان پہنچایا ہے۔
 
ایک حقیقت ہے کہ ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ ان کا وقت بہترین تھا اور وہ آنے والی نسلوں کو بتاتا رہے گا کہ وہ اچھے پرانے دن تھے۔ نجم سیٹھی کا یہ دور اس کا حقیقی عکاس ہے۔ اس نے درجنوں تقرریاں کیں اور ان کے پیچھے صرف ایک وجہ تھی، وہ پہلے بھی ان کے ساتھ کام کرچکا ہے اور وہ اس کا کمفرٹ زون ہے۔
 
اس کے نتیجے میں نجم سیٹھی نے مکی آرتھر سے ہیڈ کوچ کے طور پر واپس آنے کی درخواست کی لیکن مہینوں کی بات چیت کے بعد مکی کو ٹیکنیکل ڈائریکٹر کے طور پر مقرر کیا گیا جبکہ وہ گرانٹ بریڈ برن کے ساتھ ہیڈ کوچ کے طور پر انگلش کاؤنٹی، ڈربی شرٹ کے لیے بھی کام کر رہے تھے۔
 
ڈاکٹر سہیل سلیم کی بحالی کے پیچھے بھی اسی طرح کی دلیل کارفرما تھی حالانکہ انہیں بدانتظامی کی وجہ سے وسیم خان اور احسان مانی کے دور میں برطرف کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر سہیل سلیم کے ہاتھوں کھلاڑیوں کے زخمی ہونے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ بعد میں انہوں نے اس وقت استعفیٰ دے دیا جب محسن نقوی کے دور میں ایک کمیٹی نے احسان اللہ، شوال ذوالفقار اور کچھ دیگر افراد کے علاج میں بے ضابطگیاں پائی۔
 
کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ احسان اللہ کی دائیں کہنی کے درد کی حالت پر توجہ نہیں دی گئی، مناسب طریقے سے علاج اور آپریشن نہیں کیا گیا۔ طبی تشخیص اور تحقیقات تک پہنچنے میں تاخیر ہوئی۔ اس نے اپنی حالت کے مطابق بحالی کا باضابطہ عمل حاصل نہیں کیا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ احسان اللہ کے کندھے پر چوٹ لگی تھی اور انہیں پہلے باؤلنگ کرنے کی اجازت بھی دی گئی تھی جس سے انجری مزید بڑھ گئی۔
 
احسان اللہ اب ڈیڑھ سال سے کرکٹ سے باہر ہوچکے ہیں، شوال ذوالفقار گزشتہ 5 ماہ سے کھیل سے باہر ہیں، اور اب کمیٹی کی سفارشات میں سی ٹی سکین کرانا ہے، جو سب سے پہلے کرنا چاہیے تھا۔
 
آگے بڑھتے ہوئے، نجم سیٹھی نے 2023 کے ایشیا کپ کے لیے ایک ہائبرڈ ماڈل سے اتفاق کیا جس کی میزبانی پاکستان کو کرنی تھی۔ ہندوستان نے دورہ پاکستان سے پیچھے ہٹ کر سری لنکا میں اپنے میچ کھیلے اور وہاں کچھ دوسرے میچز بھی کھیلے گئے۔
 
اس معاہدے نے نہ صرف ایشیا کپ کو متاثر کیا بلکہ اس نے بھارت کے لیے آنے والی چیمپئنز ٹرافی سے بھی پیچھے ہٹنے کی ایک مثال قائم کی۔ سیٹھی کے اس دورِ اقتدار کا خلاصہ کرنے کے لیے ایک جملہ بلاول بھٹو کا ہے: ’’پرانا پاکستان (کرکٹ بورڈ) میں دوبارہ خوش آمدید‘‘۔
 
تاریخ کی کتابوں میں نجم سیٹھی کے نام کے ساتھ اگر کوئی نام لکھا جائے تو وہ ذکاء اشرف کا ہونا چاہیئے۔
 
ذکاء اشرف جب 10 سال قبل پی سی بی کے چیئرمین بنے تھے تو انکو صرف اور صرف اس لیے لگایا گیا تھا کہ بین الصوبائی رابطہ کی وزارت پی پی پی پی کے پاس گئی تھی اور پی سی بی اس وزارت کے تحت آتا ہے۔
 
ہرشا بھوگلے کے الفاظ میں:
 
ہم اکثر کہا کرتے ہیں کہ پیر، بدھ اور جمعہ، نجم سیٹھی چیئرمین پی سی بی ہیں جبکہ منگل، جمعرات اور ہفتہ کو ذکا اشرف چیئرمین ہیں اور اتوار کو یہ بحث ہوتی ہے کہ اگلا ہفتے کیا ہونا چاہیئے۔
 
سال 2012 میں ذکا اشرف ہی چیئرمین پی سی بی تھے جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان آخری دو طرفہ سیریز ہوئی تھی، اس لیے ان سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ بی سی سی آئی کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں گے۔ تاہم، بی سی سی آئی کے عہدیداروں کے پاکستان کے دورے سے واپس جانے کے فوراً بعد ذکاء اشرف نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ بھارت ایک دشمن ملک ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ جب وہ بھارت میں ہوں تو ان کے حوصلے بلند ہوں۔
 
ذکاء اشرف کے دور میں پی سی بی نے ایک پریس ریلیز جاری کی جب پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ میں اچھا پرفارم نہیں کررہی تھی، پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ٹورنامنٹ کے لیے ٹیم کا انتخاب صرف اور صرف کپتان بابر اعظم اور چیف سلیکٹر انضمام الحق نے کیا تھا (جیسا کہ اسے ہونا چاہیے۔) پی سی بی ٹورنامنٹ کے بعد کرکٹ کے بہترین مفاد میں کچھ فیصلے کرے گا۔
 
اس پریس ریلیز نے بابراعظم اور انضمام الحق پر الزام لگا کر کھلاڑیوں اور انتظامیہ کو بس کے نیچے پھینک دیا کیونکہ پی سی بی کی اعلیٰ انتظامیہ نے اپنا امیج بچانے کی کوشش کی جس میں وہ بری طرح ناکام رہے۔
 
اسی ورلڈ کپ کے دوران پی سی بی نے اس وقت کے کپتان بابر اعظم، محمد رضوان، شاہین آفریدی اور اس وقت کے چیف سلیکٹر انضمام الحق کی نمائندگی کرنے والی پلیئر ایجنسی سایا کارپوریشن کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرکے کھلاڑیوں کی طاقت کو توڑنے کی کوشش کی۔
 
ذکاء اشرف کے دور میں ہی پی سی بی نے انضمام کو ٹورنامنٹ کے دوران مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے برطرف کیا تھا (بظاہر یہ صرف کھلاڑیوں اور انتظامیہ کے لیے ہے بورڈ کے ملازمین کے لیے نہیں)
 
انضمام الحق نے رضوان اور ایجنسی کے مالک طلحہ رحمانی کے ساتھ مل کر کووڈ کے دوران برطانیہ میں سائیکل ہیلمٹ فروخت کرنے کے لیے سائیڈ بزنس شروع کیا۔ تاہم انہوں نے کہا ہے کہ انہوں نے اس سے ایک روپیہ بھی نہیں کمایا کیونکہ انہوں نے کوئی فروخت نہیں کی۔
 
انضمام الحق کو انکوائری کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس سے کچھ بھی سامنے نہیں آیا جیسا کہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے اور پی سی بی کا الزام صرف الزام ہی بن کر رہ گیا۔
 
اس کے بعد بابر اعظم کی ایک لیک ہونے والی بات چیت اسپورٹس صحافی تک پہنچ گئی اور اسے ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا۔ اس بحث کے دوران، کرکٹر اظہر علی نے اس طرح کے عوامی انکشاف کے اخلاقی مضمرات پر تشویش کا اظہار کیا۔ آخر کار، شو کے میزبان نے عوامی طور پر معافی مانگی، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ چیٹ کا اسکرین شاٹ شیئر کرنا ایک غلطی تھی اور اسے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا، اسکرین شاٹ دکھانے والے صحافی نے کہا کہ اسے یہ براہ راست چیئرمین پی سی بی سے ملا ہے۔
 
ذکاء اشرف کے دور میں چیف سلیکٹر وہاب ریاض نے کرکٹرز کو سلیکشن کنسلٹنٹ کے طور پر استعمال کرنے کا اعلان کیا، بشمول سلمان بٹ، ایک داغدار کرکٹر کی شمولیت کے فیصلے نے پاکستانی کرکٹ شائقین اور بین الاقوامی کرکٹ برادری میں بڑے پیمانے پر غصے کو جنم دیا۔ تاہم، وہاب نے بعد میں ناپسندیدگی سے بچنے کی خواہش کا حوالہ دیتے ہوئے انتخاب واپس لے لیا۔
 
محسن نقوی پی سی بی کے موجودہ چیئرمین ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کے وفاقی وزیرداخلہ اور سینیٹر بھی ہیں۔ موجودہ چیئرمین پی سی بی محسن نقوی ٹیم کی منصوبہ بندی میں کافی ملوث ہیں اور انہوں نے سابق کرکٹرز کی ایک ٹیم بنائی ہے جو سلیکشن کمیٹی کی ذمہ داریاں نبھائے گی اور تمام بڑے فیصلے کرے گی۔
 
موجودہ سلیکشن کمیٹی میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو سابق کرکٹر نہیں تھے، ان میں سے ایک ڈیٹا اینالسٹ بلال افضل بھی ہے، بلال افضل کو کرکٹ میں ڈیٹا اینالسٹ کے طور پر کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے، انہوں نے کسی فرنچائز یا ڈومیسٹک ٹیم کے ساتھ کام نہیں کیا۔ لیکن پھر بھی انہیں یہاں ڈیٹا تجزیہ کار کے طور پر مقرر کیا گیا ہے۔
 
یاد رہے کہ بلال افضل پہلے بھی محسن نقوی کے ماتحت کام کرچکے ہیں، جب محسن نقوی صوبہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ تھے تو بلال افضل درجن بھر محکموں کے معاملات دیکھ رہے تھے جن کے سربراہ محسن نقوی خود تھے۔
 
بلال افضل کی تعیناتی پر جب تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو پی سی بی نے پریس ریلیز تبدیل کر دی اور بلال کو صرف سلیکشن کمیٹی کے ممبر کے طور پر نامزد کیا گیا اور حسن چیمہ (سابقہ ممبر) کو اینالیٹکس کے مینیجر کے طور پر نامزد کیا گیا۔
 
محسن نقوی نے پی ایس ایل کے بعد پاکستان ملٹری اکیڈمی میں فٹنس کیمپ کا اہتمام کیا۔ یہ کیمپ رمضان المبارک کے دوران شیڈول کیا گیا تھا، پی ایس ایل اور دو طرفہ سیریز کے درمیان سینڈویچ کیا گیا تھا۔
 
چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے شاہین آفریدی کو بھی صرف ایک سیریز کے بعد کپتان کے عہدے سے ہٹا دیا، جو کسی کی کپتانی کا فیصلہ کرنے کے لیے بہت کم وقت ہے۔
 
محسن نقوی کے دور میں ہی کپتان کی تبدیلی بھی ایک معمہ بن گئی تھی، شاہین کو ہٹایا گیا اور کھلے عام اعلان کیا گیا جبکہ اس سے قبل شاہین آفریدی سے کوئی بات چیت نہیں کی گئی اور پھر پی سی بی نے شاہین آفریدی کے نام سے منسوب بیان جاری کیا جس کی فاسٹ باؤلر شاہین آفریدی نے تردید کردی کہ کپتان کی تبدیلی کے معاملے پر کوئی بات نہیں ہوئی۔
 
پی سی بی کے چیئرمین کی حیثیت سے ایک ہفتے بعد ہی محسن نقوی نے فاسٹ باؤلر حارث رؤف کا سنٹرل کنٹریکٹ بھی ختم کر دیا کیونکہ وہ آسٹریلیا کے ٹیسٹ ٹور سے دستبردار ہوگئے تھے۔ تاہم حارث رؤف نے اب تک صرف ایک ٹیسٹ کھیلا ہے اور اس کے بعد وہ زخمی ہوگئے تھے۔ حارث رؤف کا خیال تھا کہ انہیں ٹیسٹ کرکٹ کی تیاری کے لیے وقت دینا چاہیے تھا۔
 
پاکستان کرکٹ میں حالات برے موڑ کے بعد خراب موڑ لے چکے ہیں اور حالات تبھی بہتر ہوں گے جب سیاسی تقرریاں ملک کے کرکٹ بورڈ کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ نہ ہوں۔